یورپ دو ہزار سالوں سے مسیحی ایمان کا ایک مرکزی گہوارہ رہا
ہے۔ رومن سلطنت کے عہد سے لے کر اصلا حِ کلیساء ، نشاۃ ثانیہ اور صنعتی انقلاب تک۔ یورپی
اقوام نے مسیحی عقیدے کو نہ صرف اپنے معاشروں میں راسخ کیا بلکہ دُنیا کے کونے
کونے تک پھیلایا ۔یہ کہنا بےجاہ نہیں کہ مغربی تہذیب کی بنیاد ہی مسیحیت پر ہے ۔مغربی معاشرے میں جو انسانی حقوق، عدل و انصاف، رحم، مساوات، آزادی اور انسانی
وقار کے تصورات پروان چڑھے ان کی جڑیں مسیحی تعلیمات میں پیوست تھیں۔
"ہر انسان خدا کی صورت پر پیدا ہوا ہے " یہ مسیحی عقیدہ مغرب
میں انسانی عظمت کا فکری ستون بنا رہا۔
یورپ کی ابتدائی
جامعات جیسے آکسفورڈ، کیمبرج، سوربون اور دیگر ادارے کلیسائی سرپرستی میں قائم
ہوئے۔ ان کا مقصد علم کو فروغ دینا اور سچائی کی تلاش تھا، جو مسیحی روایت میں
روحانی فریضہ سمجھا جاتا تھا۔ مغرب میں قانون کی جڑیں بھی بائبل کی تعلیمات میں
ملتی ہیں۔ انہی اصولوں نے مغربی قانونی نظام کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا، جیسے
سچ بولنا، چوری نہ کرنا، قتل سے اجتناب، اور عادلانہ سلوک۔
یورپین آرٹ،
مصوری، فنِ تعمیر، موسیقی اور ادب صدیوں تک کلیسا ءکے زیرِ اثر پنپتے رہے۔ چرچز میں بننے والے آرکیٹیکچر اور
بائبل کی کہانیوں پر مبنی فن پارے آج بھی مغرب کی پہچان ہیں
اسپتال، یتیم
خانے، اسکول اور دیگر رفاہی ادارے مسیحی مشنریوں نے قائم کیے۔ غریبوں، مریضوں اور
مظلوموں کی مدد مسیحی عقیدے کی بنیادی روح تھی۔
انیسویں اور
بیسویں صدی میں سائنسی انکشافات، صنعتی ترقی، اور روشن خیالی نے مذہب کو نجی زندگی
تک محدود کرنے کی فکری لہر پیدا کی۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہی روشن خیالی اور سائنسی آزادی
بھی مسیحی بنیادوں پر استوار تھی یعنی سوال اٹھانے، حق کی تلاش
اور ضمیر کی آزادی جیسی اقدار تحریک ِ اصلاح کلیساء
کی ابتدائی جدوجہد کا ہی تسلسل تھیں۔
تو سوال ہے کہ
پھر مسیحیت یورپ میں زوال پذیر کیوں ہے؟
یوں تو
انیسویں اور بیسویں صدی میں ہی بیشر یورپی
ریاستوں میں مذہب کو ریاستی امور سے باہر کر دیا گیا ۔ مگر موجود زوال کا آغاز دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہوا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد نیٹو کے پلیٹ فارم سے
یورپ کی سکیورٹی کی ذمہ داری امریکہ نے لے لی۔ جب سکیورٹی کا بڑا بوجھ امریکہ نے اٹھا لیا، تو
یورپی ریاستوں کو موقع ملا کہ وہ اپنے بجٹ کا بڑا حصہ عوامی فلاح، تعلیم، صحت، رہائش، اور
سماجی تحفظ پر خرچ کریں۔ عوام
کو بہتر سماجی سہولیات فراہم کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی
کہ وہ اشتراکی نظریے کی طرف مائل نہ ہوں یہی وہ وقت تھا جب فلاحی ریاست کا
تصور عملی طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ اشتراکیت کے خطرے، اور تباہ حال یورپ کی تعمیر
نو نے مل کر فلاحی
ریاستوں کی بنیاد رکھی۔
فلاحی کام جو پہلے چرچ کی خدمت سمجھی جاتی تھیں۔ اب ریاست یہ
کام بخوبی سرانجام دے رہی تھی۔ نئی نسل کو محسوس ہوا کہ ان کی ضرورتیں چرچ کی
بجائے ریاست پوری کر رہی ہے۔
نئی نسل
جس نے دوسری جنگ ِعظیم کے ہولناک مناظر
دیکھے تھے جس میں تقرییاً سات کروڑ سے
زیادہ لوگ جان سے گئے وہ "محبت کے خدا" اور "انصاف" کے وعدے
سے مایوس ہو چکی تھی۔ یہ نسل سوال کرتی تھی "اگر خدا ہے تو جنگیں کیوں ہوئیں۔
یورپ کے قدیم رسمی چرچ کے پاس اس کا تسلی بخش جواب نہ تھا۔ چرچ نے کئی معاملات میں قوم پرستی یا مصلحت کو مسیحی
افکارواقدار پر ترجیح دی۔
1960 کی
دہائی میں جنسی
آزادی، فیمنزم، اور انفرادیت پسندی کی تحریکیں زور پکڑنے لگیں۔ یہ
تبدیلی نہایت انقلابی اور فوری نوعیت کی تھیں جن کا مقابلہ کرنے کے لیے چرچ تیار
نہ تھا۔ چرچ
اپنی عبادات، تعلیمات اور زبان کو جدید دور سے ہم آہنگ نہ کر سکا۔ جنسی اسکینڈلز، مالی بدعنوانی نے چرچ کی اخلاقی
ساکھ کو
مزید تباہ کیا۔
جدید نظریات جیسے سیکولرازم،
لبرلزم، فردیت، نے مسیحی اقدار کو ریاستی امور کے بعد ذاتی زندگیوں سے بھی بے
دخل کر دیا۔ ان نظریات نے خدا، روحانیت، اور قربانی جیسے تصورات کو پسِ پشت
ڈال دیا۔ اب لوگ ذاتی آزادی، دولت، اور مادی کامیابی کو ترجیح د یتے ہیں، ایثار، ہمدردی، قناعت اور دوسروں کا
خیال رکھنے جیسی مسیحی اقدار معدوم ہو تی گئیں۔ انفرادیت
پسندی کے نظریات نے خاندانی نظام کو تباہ کیا۔ شادی کے بندھن کو بے وقت کیا۔ نتیجہ کیا نکلا۔ تمام مادی ترقی اور مالی خوش حالی ، شخصی آزادی کے باجودہ
اب یورپین نسل کے وجود کو خطرات لاحق
ہیں۔
سب سے بڑا خطر ہ
انتہائی کم شرح پیدائش
۔ یورو اسٹیٹ کی تازہ رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کے تمام ممالک میں شرحِ
پیدائش تشویشناک حد تک کم ہو چکی ہے۔ اوسط شرحِ پیدائش 1.38 فی عورت ہے،
جبکہ آبادی کو مستحکم رکھنے کے لیے کم از کم 2.1 کی شرحِ پیدائش ضروری
سمجھی جاتی ہے۔
جدید معاشرتی رجحانات کے تحت خاندانی اکائی کا روایتی تصور تیزی
سے بدل گیا۔ شادی سے مکمل گریز، ازدواجی زندگی میں تاخیر، نکاح کے قانونی اور
مذہبی بندھن کے بغیر باہمی رہائش، ہم جنس جوڑوں کا قیام اور افزائشِ نسل کی صلاحیت
رکھنے کے باوجود ارادتاً اولاد سے اجتناب
جیسے رویے عام ہیں۔ ان تمام طرزِ زندگی کے پیچھے ایک مشترکہ سوچ کارفرما
ہے، جس میں اجتماعی ذمہ داریوں پر انفرادی ترقی اور پیشہ ورانہ کامیابی کو فوقیت
دی جاتی ہے۔ اس نظریے کے مطابق، اولاد کی پیدائش اور پرورش کو ذاتی امنگوں اور
کیریئر کی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھا جاتا ہے
ماہرین کے مطابق اگر یہی رجحان
جاری رہا تو آئندہ چند دہائیوں میں یورپ کی آبادی میں نمایاں کمی واقع ہو سکتی ہے۔
یورپی نسل کی اکثریت معمر ہو جائے گی۔ اور
نوجوان آبادی کی کمی سے نہ صرف معاشی نظام دباؤ میں آئے گی بلکہ پینشن، صحت، اور فلاحی نظام بھی عدم توازن کا
شکار ہوں گے۔ نوجوان افرادی قوت کی کمی
تارکین وطن پورا کریں گے۔
کئی ماہرین
سماجیات اس خدشے کا اظہار کر چکے ہیں کہ اگر شرح پیدائش میں خاطر خواہ اضافہ نہ
ہوا تو یورپی نسلی شناخت، زبان، اور ثقافت پر اثر پڑےگا۔یورپ سماجی خلفشار،
ثقافتی تنازعات اور سیاسی عدم استحکام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ اگر
یہی شرح پیدائش رہی تو اگلی چاردہائیوں میں تارکین وطن آبادی کے لحاظ سے اکثریت ہو جائیں گے۔ اس کے نتیجے میں سماجی کشیدگی،
نسلی امتیاز، شناخت کا بحران، اور سیاسی پولرائزیشن میں اضافہ ہوگاَ۔
نیٹو میں امریکہ کی کم ہوتی ہوئی دلچسپی کی وجہ سے
یورپ کی دفاعی اور سیکورٹی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ یورپ کا توانائی
(تیل اور گیس) کے لیے روس پر انحصار بھی اسے ایک مشکل صورتحال میں مبتلا کر رہا ہے، اور چین کی سائنس اور ٹیکنالوجی
اور بین الاقوامی تجارت، اور یورپی منڈیوں میں بڑھتا ہوا
اثرورسوخ یورپ کے لیے نئے چیلنجز پیدا کر رہا۔
اسی صورت حال میں مفکرین کا خیا ل ہے یور پ کو توبہ کرنی پڑھے گی
اور واپس اُسی مسیحی ایمان اور اقدار کو اپنانا ہوگا جو دوہزار سال سے یورپ کی
میراث رہی ہیں۔ گرجا گھروں کو آباد کرنا
ہو گا۔ریاست کی سر پرستی میں خاندانی نظام، ازدواجی زندگی، بچوں کی پرورش ،مسیحی اقدار پر استوار کرنا ہو گئیں۔ چرچ کو روایتی عبادات سے نکل کر جدید طریقہ کار ا
پنانے ہوں گی۔ نوجوان نسل کو باور کروانا
ہے کہ مسیحیت ایک مذہب نہیں بلکہ خدا کے
ساتھ تعلق کا نام ہے
یورپ کو روحانی
خلا کو بھرنے کی ضرورت ہے — صرف معیشت اور ٹیکنالوجی سے قومیں زندہ نہیں رہتیں،
بلکہ اقدار، شناخت اور مقصدِ حیات سے قائم رہتی ہیں۔ جو جانتی ہو کہ وہ کون ہے،
کیوں موجود ہے، اور کس سمت جانا چاہتی ہے۔
یورپ نے اپنے طویل تاریخی سفر میں دو
تباہ کن انتہاؤں کا خمیازہ بھگتا ہے۔ قرونِ وسطیٰ میں جہاں اس نے مذہبی انتہا
پسندی اور جنونیت کے تباہ کن اثرات کا سامنا کیا، وہیں گزشتہ سات دہائیوں میں وہ
بے لگام آزاد خیالی (لبرلزم) اور لادینیت کی انتہا کے منفی نتائج سے بھی گزر رہا ہے۔
دونوں انتہاؤں کو آزمانے کے بعد اب وقت آن پہنچا ہے کہ یورپی معاشرہ اپنی سمت درست
کرے اور اعتدال، توازن اور میانہ روی کی راہ اختیار کرے۔
اس صورتِ حال میں یورپ کے لیے لازم ہے کہ وہ بائبل میں مذکور مسّرف بیٹے کی
مانند اپنے آسمانی باپ کی جانب رجوع کرے، جو اپنی ساری میراث دنیا کی رنگینیوں میں
ضائع کرنے کے بعد ہوش میں آیا اور اپنے باپ کے گھر لوٹ آیا۔ وہ شفیق باپ آج بھی
اپنی بانہیں پھیلائے منتظر ہے اور اپنے لوٹ آنے والے بیٹے کو دیکھ کر خوشی سے پکار
اٹھتا ہے۔
“کیونکہ میرا یہ بیٹا مر گیا تھا، اب زِندہ ہُوا ہے؛ کھو گیا تھا، اب مِل
گیا ہے۔”
(لوقا 15: 24)
اگر یورپ نے ادراک نہ کیا تو مشہور برطانیوی مہم جو 'جیمز کُک ' کا قول ایک بار پھر درست ثابت ہو گا۔ وہ کہتا تھا
" ایک تہذیب کے زوال اور خاتمے کا اس کے اکثر
شہریوں کو ادراک تک نہیں ہوتا۔" – جیمز کک