پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مسیحی
رکن پنجاب اسمبلی، فیلبوس ہدایت نے
سرگودھا میں ایک 14 سالہ مسیحی بچے کے مبینہ طور پر جبری مذہب تبدیل کروانے کے
واقعے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے معاملے کی فوری اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا
مطالبہ کیا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے اس واقعے
کو اقلیتوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔
ایم پی اے فیلبوس نے ایوان
کو بتایا کہ یہ واقعہ انتہائی افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب
میں بسنے والے 40 لاکھ اور پورے پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد اقلیتی افراد کی
نمائندگی کرتے ہوئے وہ یہ معاملہ ایوان کے سامنے لا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس
قسم کے واقعات سے عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے اور اقلیتی برادری میں
عدم تحفظ کا احساس بڑھتا ہے۔
انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے
کہا کہ سرگودھا میں ایک بیوہ مسیحی خاتون کے 14 سالہ بیٹے کو، جو اپنے خاندان کا
واحد سہارا تھا، ایک نجی کارخانے میں ملازمت دی گئی۔ کچھ عرصے بعد کارخانے کے مالک
اور دیگر افراد نے مبینہ طور پر بچے پر مذہب تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر
دیا۔ جب بچے نے اس سے انکار کیا تو اسے کام سے نکال دیا گیا اور گھر بٹھا دیا گیا۔
رکن اسمبلی کے مطابق، بعد
ازاں جب بچے کی والدہ گھر پر موجود نہیں تھی، تو ملزمان زبردستی بچے کو اغوا کر کے
لے گئے اور اس کا مذہب تبدیل کروا دیا۔ انہوں نے بتایا کہ والدہ کی درخواست پر
پولیس نے ایف آئی آر تو درج کر لی لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ بچے نے اسلام قبول
کر لیا ہے تو انہوں نے کارروائی کرنے سے انکار کر دیا اور مدعی مقدمہ کو واپس بھیج
دیا۔
ایم پی اے فیلبوس نے سوال
اٹھایا کہ ایک 14 سالہ بچہ، جو ابھی نابالغ ہے اور اپنے مذہب کے بارے میں بھی پوری
طرح نہیں جانتا، وہ چند دنوں میں کسی دوسرے مذہب کو کیسے سمجھ سکتا ہے اور اپنی
مرضی سے اسے کیسے قبول کر سکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا قانون کسی بھی
نابالغ کو اپنا مذہب تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
انہوں نے اسپیکر پنجاب
اسمبلی سے درخواست کی کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، جس
میں انتظامیہ، بچے اور اس کی والدہ کو بلا کر حقیقت معلوم کی جائے۔ انہوں نے اس
بات پر بھی زور دیا کہ بچے کو فوری طور پر اس کی والدہ کے حوالے کیا جائے تاکہ اس
کی بے سہارا ماں اور چھوٹے بہن بھائیوں کو ان کا واحد سہارا واپس مل سکے۔
ایم پی اے فیلبوس نے جبری مذہب تبدیلی کے خلاف موثر قانون
سازی کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کو یقینی
بنایا جا سکے اور اقلیتی برادری خود کو محفوظ تصور کر سکے