پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کے حقوق: وعدے اور حقیقت - طاہر وکی

 

Tahir Vicky - Pakistani Journalist
طاہر وکی

تحریر ۔۔۔طاہروکی

پاکستان ایک کثیر الثقافتی اور کثیر اللسانی ملک ہے جہاں مختلف مذاہب اور عقائد سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت قائد اعظم محمدعلی جناح نے واضح طور پر کہا تھا کہ آپ آزاد ہیں، آپ اپنے مندروں، گرجا گھروں اور عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں ، ریاست کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہوگا کہ آپ کا مذہب کیا ہے۔ یہ الفاظ پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کے لیے اُمید کی کرن تھے۔ مگر آج تقریبا 77 سال بعد صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو حالات قائد اعظم کے وژن سے کافی مختلف نظر آتے ہیں۔ پاکستان کے آئین میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مختلف شقیں شامل ہیں: آرٹیکل 20 کے تحت ہر شہری کو اپنے مذہب کی تبلیغ، عبادت اور مذہبی رسومات ادا کرنے کی مکمل آزادی دی گئی ہے۔ آرٹیکل 22 کے مطابق کسی  تعلیمی ادارے میں کسی طالب علم کو اس کے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہبی تعلیم کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ آرٹیکل 36 ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کرے۔  قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں رکھی گئی ہیں تا کہ وہ اپنی آواز بلند کرسکیں۔ کاغذوں میں یہ حقوق بہت مضبوط نظر آتے ہیں مگر عملی طور پر ان پر مکمل عملدرآمد نہیں ہوتا ۔ عملی صورتحال اور مسائل پاکستان میں بہنے والی اقلیتیں، جن میں مسیحی، ہندو، سکھ، پاری، بہائی اور دیگر شامل ہیں، کئی مسائل سے دوچار ہیں: 1۔ جبری مذہب کی تبدیلیاں ہندو اور مسیحی لڑکیوں کے جبری مذہب کی تبدیلی کے کیسز آئے دن خبروں کی زینت بنتے ہیں، خاص طور پر اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب میں۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے اگر اکثر یہ کیسزسیاسی دباؤ اور کمز ور عدالتی نظام کے باعث حل نہیں ہو پاتے۔ 2۔ مذہبی عبادت گاہوں پر حملے اقلیتی برادری کے گرجا گھروں، مندروں اور دیگر عبادت گاہوں پر حملے پاکستان کے لیے ایک منفی تاثر پیدا کرتے ہیں۔ جڑانوالہ کو گراں اور گھوٹکی جیسے اور واقعات اقلیتوں  کےخوف اور عدم تحفظ کو واضح کرتے ہیں ۔ 3 تعلیمی اور روزگار کے مسائل اقلیتی نو جوان تعلیم کے میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں کیونکہ انہیں اکثر تعلیمی اداروں میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسکالرشپس اور کوٹہ سسٹم تو موجود ہے لیکن اس پر شفاف  عمل در آمد نہ  ہونے کے برابر ہے ۔ ملازمتوں میں اقلیتوں کے لیے پانچ فیصد کو ٹہ رکھا گیا ہے، مگر اکثر  یہ کوٹہ  مکمل نہیں بھرا جاتا۔ 4 سماجی امتیاز اقلیتی برادری کو روزمرہ زندگی میں امتیازی سلوک کا سامنا رہتا ہے۔ انہیں بعض دیہات میں پانی کے کنوؤں ، ہوٹلوں یا  گلی محلوںمیں برابر کا درجہ نہیں دیا جاتا۔ انہیں صفائی یا کم درجے کی ملازمتوں تک محدود رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، جو کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

اقلیتوں کی نمائندگی   پاکستان کی اسمبلوں میں اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں تو موجود ہیں لیکن یہ نمائندے اکثر بڑی سیاسی جماعتوں کی نامزدگی  سے آتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ اپنی برادری کے حقیقی مسائل کے بجائے اپنی جماعت کے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر اقلیتوں کو براہ راست ووٹ کے ذریعے نمائندے منتخب کرنے کا حق دیا جائے تو ان کی آواز زیادہ مؤثر طریقے سے اُبھر سکتی ہے۔ حکومتی اقدامات ۔گذشتہ برسوں میں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے چند اقدامات کیے گئے ہیں جیسے مندروں اور گرجا گھروں کی بحالی کے منصوبے۔ اقلیتی طلبہ کے لیے اسکالرشپ پروگرام مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے کمیٹیاں ۔ لیکن یہ سب اقدامات صرف نما ئشی ثابت ہوئے ہیں کیونکہ ان کے نتائج زمینی سطح پر دکھائی نہیں دیتے۔ ضرورت اصلاحا ت اقلیتوں کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے حکومت اور معاشرے کو درج ذیل اقدامات کرنے ہوں گے: جبری مذہب کی تبدیلی کے خلاف سخت اور مؤثر قانون   سازی  اقلیتوں برادر است نمائندگی  کاحق دینا ۔ تعلیمی  اداروں کو مذہبی   ہم آہنگی اور برداشت کو نصاب کا حصہ بنانا ۔ عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے خصوصی سیکیورٹی فورس قائم کرنا۔ معاشرتی شعور بیدار کرنے کے لیے میڈیا اور سول سوسائٹی کا کردار بڑھانا۔ پاکستان کا مستقبل اسی وقت روشن ہو سکتا ہے جب یہاں بسنے والے تمام مذاہب اور بر اور یوں کو برابری کے حقوق ملیں ۔ اقلیتوں کا تحفظ صرف انسانی ہمدردی کا تقاضا ہے بلکہ یہ آئین پاکستان کا بھی حکم ہے۔ اگر ہم قائد اعظم کے وژن کے مطابق ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ اقلیتوں کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کیا جائے اور انہیں یقین دلایا جائے کہ پاکستان سب کا وطن ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی