تحریر: اظہر عادل
پاکستان
میں اقلیتی برادریوں کے حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے قومی اقلیتی حقوق کمیشن بل
2025 ایک طویل عرصے سے زیر التوا ہے۔ یہ بل، جو اقلیتوں کے سماجی، اقتصادی، سیاسی
اور قانونی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری
کے باوجود غیر معمولی تاخیر کا شکار ہے۔ اس تاخیر سے نہ صرف جمہوری اقدار کو ٹھیس
پہنچ رہی ہے بلکہ ملک میں اقلیتی برادریوں کے اعتماد کو بھی متزلزل کر رہی ہے۔
یہ بل اپریل
2025میں سینیٹ اور 12 مئی 2025کو قومی
اسمبلی سے منظور ہوا، جس کے بعد اِسے صدر مملکت کو منظوری کے لیے بھیجا گیا۔
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 75(1) کے تحت صدر کو کسی بھی بل پر دستخط کرنے، تحفظات
کے ساتھ واپس بھیجنے یا دس دن کے اندر دستخط نہ کرنے کی صورت میں اسے خود بخود
قانون بن جانے دینے کا اختیار حاصل ہے۔ لیکن صدر مملکت نے اس بل کو تقریباً چار
ماہ اپنے پاس رکھا اور آخر کار 31 اگست 2025 کو اسے اپنے تحفظات کے ساتھ پارلیمنٹ
کو واپس بھیج دیا۔
اقلیتی
حقوق کے کارکنوں، قانونی ماہرین اور سول سوسائٹی نے اس تاخیر پر شدید تشویش کا
اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ تاخیر اقلیتوں کے ریاست پر اعتماد کو کمزور کرتی ہے
اور ملک کی جمہوری ساکھ کو متاثر کرتی ہے۔
اب ایک
بار پھر وہی عمل دہرایا جائے گا: بل پارلیمانی کمیٹیوں اور ایوانوں میں زیرِ بحث
لایا جائے گا، اس پر مزید اجلاس ہوں گے اور بالآخر مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جائے
گا۔ لیکن اس ساری کارروائی میں کتنا وقت لگے گا، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
پیپلز
پارٹی کے صدر کی جانب سے اس طرزِ عمل پر ناقدین حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ پیپلز
پارٹی ہمیشہ اپنے آپ کو ایک لبرل اور جمہوری جماعت قرار دیتی ہے، لیکن ایسے اہم
قانون پر تاخیر اس بیانیے سے متصادم ہے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ ارکانِ پارلیمنٹ کی
مراعات اور تنخواہوں کے بل محض چند گھنٹوں میں پاس ہو جاتے ہیں اور ان پر فوری عمل
درآمد بھی ہو جاتا ہے، جبکہ ان ہی مراعات کا اطلاق مرضی کے مہینوں سے کیا جاتا ہے۔
اس کے برعکس اقلیتوں کے حقوق جیسے حساس اور قومی اہمیت کے حامل معاملات برسوں
لٹکائے جاتے ہیں۔
سب سے
زیادہ قابلِ افسوس پہلو یہ ہے کہ یہ تاخیر دراصل سپریم کورٹ کے حکم عدولی کے
مترادف ہے۔ جون 2014 میں اُس وقت کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ایک تاریخی
فیصلے میں حکومت کو حکم دیا تھا کہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک آزاد
اور خودمختار آئینی کمیشن تشکیل دیا جائے۔ لیکن گیارہ برس گزرنے کے باوجود اس
عدالتی حکم پر مکمل عمل درآمد نہیں کیا جا سکا۔ یہ صورتِ حال نہ صرف آئین اور
عدلیہ کے تقدس کو متاثر کرتی ہے بلکہ اقلیتوں کو یہ احساس بھی دلاتی ہے کہ ان کے
مسائل ریاستی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔
ناقدین کے
خیال میں قانون سازی میں تاخیر محض انتظامی غفلت یا سیاسی ترجیحات کا مسئلہ نہیں،
بلکہ سپریم کورٹ کی جانب سے قائم ایڈہاک ون مین کمیشن کو ہی جاری رکھنے کی کوشش ہو
سکتی ہے۔ یہ کمیشن گزشتہ دس برس سے کام کر
رہا ہے مگر اس کی حیثیت نہ تو آئینی ہے اور نہ ہی مکمل قانونی۔
حکومت کو
چاہیے کہ قومی اقلیتی حقوق کمیشن کو جلد از جلد آئینی اور قانونی بنیادوں پر
مستقل حیثیت دے تاکہ اس پر کوئی سیاسی یا انتظامی سوالیہ نشان نہ رہے۔ کمیشن
میں اقلیتوں کے نمائندوں کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے اور اس کی تشکیل میں
شفافیت ہو تاکہ اقلیتی برادری اسے اپنا ادارہ سمجھ سکے۔ پارلیمنٹ کو چاہیے کہ ایسے
حساس قوانین پر تاخیر سے اجتناب کرے، کیونکہ یہ تاخیر جمہوری عمل کو کمزور اور
اقلیتوں کے اعتماد کو مجروح کرتی ہے۔