آج 13 اکتوبر 2025 کو، پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما محمد سہیل آفریدی کو نئے وزیر اعلیٰ منتخب کر لیا ہے۔ یہ انتخاب سابق وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے استعفیٰ کے بعد ہوا، جو بانی پی ٹی آئی عمران خان کے حکم پر عہدے سے دستبردار ہوئے۔
اسمبلی اجلاس اسپیکر بابر سلیم سواتی کی زیر صدارت
منعقد ہوا، جہاں سہیل آفریدی کو اکثریت ووٹوں سے کامیابی ملی، جبکہ اپوزیشن اراکین
نے احتجاجاً واک آؤٹ کر دیا۔ یہ تبدیلی صوبائی سطح پر ایک اہم سیاسی پیش رفت ہے،
جو پی ٹی آئی کی اندرونی حکمت عملی اور صوبائی مسائل جیسے بے امنی، کرپشن اور
ترقیاتی چیلنجز کے تناظر میں دیکھی جا رہی ہے۔
محمد سہیل آفریدی کی سیاسی جدوجہد: محمد سہیل آفریدی ایک پرعزم نوجوان رہنما ہیں،
جو پی ٹی آئی کی نوجوان نسل کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کی سیاسی زندگی کا آغاز طالب
علمی کے دور سے ہوا، جہاں وہ "انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن (آئی ایس ایف)" کے
صوبائی صدر رہے۔ یہ تنظیم پی ٹی آئی کی نوجوان ونگ ہے، اور آفریدی نے اسی پلیٹ
فارم سے صوبے بھر میں طلبہ حقوق، تعلیم کی بہتری اور سیاسی شعور کی مہم چلائی۔
ابتدائی سیاسی کیریئر (2010 کی دہائی): آفریدی نے
2013 اور 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی مہمات میں فعال کردار ادا کیا، خاص
طور پر خیبر ضلع میں جہاں انہوں نے پارٹی کو مقامی سطح پر مضبوط کیا۔ وہ پی ٹی آئی
کی مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) کے رکن بھی ہیں، جو پارٹی کے اعلیٰ فیصلہ سازی
فورم کا حصہ ہے۔ -
عام انتخابات اور اسمبلی میں انٹری:
ضلع خبیر کے صوبائی حلقہ 70 سے پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ
آزاد امیدوار کے طور پر منتخب ہوئے۔
انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار بلاول
آفریدی کو شکست دی، جو ایک بڑی سیاسی فتح تھی۔ یہ ان کی پہلی اسمبلی نشست تھی، جو
ان کی مقبولیت اور پارٹی کی مقامی گرفت کی عکاسی کرتی ہے۔
- **حکومتی عہدوں پر ذمہ داریاں:" اسمبلی میں شمولیت کے فوراً بعد، آفریدی کو **وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی کمیونیکیشن اینڈ ورکس** کا عہدہ سونپا گیا، جہاں انہوں نے انفراسٹرکچر اور ترقیاتی منصوبوں پر کام کیا۔ حال ہی میں (10 دن قبل)، انہیں **اعلیٰ تعلیم کے معاون خصوصی** بھی بنایا گیا، جو صوبے کی تعلیمی اصلاحات اور نوجوانوں کی شمولیت کو فروغ دینے میں ان کی دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔ آفریدی کی جدوجہد کا مرکز خیبر پختونخوا کے پسماندہ علاقوں کی ترقی، نوجوانوں کی بااختیار بنانا اور پارٹی کی اندرونی جمہوریت رہا ہے۔ وہ عمران خان کی "نوجوانوں کی قیادت" کی پالیسی کے پرچم بردار سمجھے جاتے ہیں، اور ان کی نامزدگی کو پی ٹی آئی کی نئی نسل کو آگے لانے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ صوبے کے پہاڑ جیسے مسائل (جیسے دہشت گردی، معاشی بحران اور وفاقی تعلقات) ان کے لیے
بڑا امتحان ہوں گے۔
ان کا تعلق ایک مڈل کلا س گھرانے سے ہیں ۔ اور کرایے کے گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ انہوں نے معاشیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے ۔
ان کی عمر 35 سال ہے یوں وہ پاکستان کے کم عمر ترین وزیر اعلیٰ ہیں۔ ان کے خاندان میں دور دور تک کوئی سیاست کے میدان میں نہیں۔