غیرت کے نام پر قتل : سدرہ کیس میں قبر کشائی کی کاروائی مکمل، رپورٹ جاری

 

    سدرہ

 مجسٹریٹ کی  ہدایت پر سدرہ کیس میں قبرکشائی مکمل ڈاکٹروں  نے پوسٹ مارٹم کیا ۔ ماہرین نے فرانزک ٹیسٹ کے لیے مقتولہ کی ڈیڈباڈی سے نمونے حاصل۔ بظا ہر باڈی پر تشدد کی علامات نہیں ملی۔ 


راولپنڈی کے پِھر واہائی علاقے میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ سامنے آیا تھا ، جہاں 19 سالہ سدرہ عرب گل کو عزت کے نام پر قتل کر دیا گیا۔

 واقعے کی تفصیلات سدرہ کی کہانی درد اور دکھ سے بھری ہوئی ہے۔

اس کے والد کی موت کے بعد اس کی والدہ نے دوسری شادی کر لی، ماں نے سدرہ کی شادی اس سال جنوری میں  کری ۔ مگر  چند ماہ بعد اس کے شوہر نے زبانی طلاق دے دی۔ اس کے بعد سدرہ نے اپنی مرضی سے کشمیر کے ایک نوجوان عثمان کے ساتھ عدالت میں شادی کی۔ تاہم، یہ فیصلہ اس کے خاندان اور رشتہ داروں کے لیے ناقابل قبول ثابت ہوا۔ تین دن بعد اس کے چچا اور دیگر رشتہ داروں نے اسے گن پوائنٹ پر کشمیر سے راولپنڈی واپس لایا۔ رات گئے ایک غیر قانونی جرگہ منعقد کیا گیا، جس میں سدرہ کو "غیر اخلاقی" قرار دیا گیا اور اس کی موت کا حکم دیا گیا۔ رپورٹس کے مطابق، اس جرگے میں نہ تو اس کی والدہ موجود تھیں اور نہ ہی کوئی خاندانی رکن نے اس کی حمایت کی۔

صبح چار بجے مردوں کے ایک گروپ نے سدرہ کو پکڑ کر ایک کمرے میں لے جاکر اس کے منہ پر تکیہ رکھ کر اسے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا۔

قتل کے بعد ملزمان نے اس کی لاش کو رکشے میں ڈال کر ایک مقامی قبرستان میں لے جایا، جہاں انہوں نے خود قبر کھود کر اسے دفن کیا۔ رپورٹس کے مطابق، قبر کے نشانات مٹا دیے گئے اور قبرستان کے انچارج کو رشوت دی گئی تاکہ اس واقعے کی کوئی یادگار نہ بچے۔

سولہ جولائی کو قتل کے بعد، پانچ دن گزرنے پر 21 جولائی کو تھانے میں ایک جعلی ایف آئی آر درج کی گئی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ سدرہ نے گھر سے ڈیڑھ لاکھ روپے نقد اور زیورات لے کر بھاگ گئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایف آئی آر دائر کرنے والے ہی سدرہ کے قاتل نکلے۔  

 پولیس نے تحقیقات شروع کیں۔ 27 جولائی کو سدرہ کے دوسرے شوہر عثمان نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا، جبکہ سدرو کے پہلے  شوہر اور  سسر نے بھی اعتراف جرم کیا۔ راولپنڈی کے سٹی پولیس آفیسر خالد حمدانی نے بتایا کہ اس کیس میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 311 کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے، جس سے قانونی مصالحت یا معافی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ پولیس اب سدرہ کی قبر کشائی کی تیاری کر رہی ہے تاکہ مزید ثبوت جمع کیے جا سکیں۔

 سماجی اور قانونی تناظر سدرہ کا قتل پاکستان میں عزت کے نام پر ہونے والے قتلوں کی ایک اور بھیانک مثال ہے، جو انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق سالانہ 1000 سے زائد خواتین کی زندگیاں چھین لیتے ہیں، اگرچہ سرکاری اعدادوشمار 470 کیسز رپورٹ کرتے ہیں۔ 2016 میں پاکستان نے عزت کے قتل میں خاندانی معافی کے قانون کو ختم کیاتھا۔

لیکن دیہاتوں میں جرگہ سسٹم اب بھی غالب ہے، جہاں مردانہ بالادستی اور قبائلی روایات قانون سے بالاتر ہوتی ہیں۔  سماجی کارکنوں اور انسانی حقوق کے ورکرز ، سیاستدانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ معروف صحافی رؤف کلاسرا نے اپنے ٹویٹ میں اسے انسانیت کے خلاف جرم قرار دیتے ہوئے حکام سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔ دوسری جانب، انسانی حقوق کی تنظیمیں اس واقعے کو جرگہ کلچر کے خاتمے اور خواتین کے حقوق کی حفاظت کے لیے ایک بڑا چیلنج قرار دے رہی ہیں۔


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی