1947سے 2025 تک مسیحیوں اور اقلیتوں کا انتخابی نظام :ایک جائزہ

 




پاکستان کے قیام کے بعد سے لے کر آج تک اقلیتوں، خصوصاً مسیحی برادری، کے لیے جو انتخابی نظام ترتیب دیا گیا، وہ وقت کے ساتھ مختلف مراحل سے گزرتا رہا۔ اس نظام میں بارہا تبدیلیاں آئیں، جنہوں نے اقلیتوں کو کبھی الگ شناخت دی اور کبھی انہیں مرکزی دھارے میں لانے کی کوشش کی۔ تاہم یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ سفر زیادہ تر الجھن، عدم مساوات، اور سیاسی غلامی کا عکاس رہا۔

ابتدائی دور (1947 تا 1954)

قیامِ پاکستان کے بعد اقلیتوں کے انتخابی حقوق کے تعین میں تاخیر اور غیر یقینی صورتحال نمایاں رہی۔ 1947 سے 1954 تک کسی واضح آئینی فریم ورک کی عدم موجودگی میں اقلیتوں کے لیے نمائندگی کے طریقہ کار کا فیصلہ عارضی احکامات کے تحت کیا جاتا رہا۔ اس دوران بعض نشستیں اقلیتوں کے لیے مخصوص کی گئیں، لیکن ان کی نامزدگی اور انتخاب کے طریقہ کار پر شفافیت کا فقدان رہا۔

کا آئینی خاکہ1954

1954میں پہلا آئینی ڈرافٹ سامنے آیا، جس میں اقلیتوں کی علیحدہ حیثیت تسلیم کرتے ہوئے انہیں مخصوص نشستیں دینے کی بات کی گئی، مگر یہ مسودہ حتمی آئین بننے سے پہلے ہی تحلیل کر دیا گیا۔ تاہم اس خاکے میں یہ بات طے پائی تھی کہ اقلیتیں براہِ راست ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کریں گی، جسے "علیحدہ انتخابی نظام" کہا جاتا تھا۔

کا آئین1956

پاکستان کا پہلا باقاعدہ آئین 1956 میں نافذ ہوا، جس نے اقلیتوں کو علیحدہ انتخابی    نظام کے تحت نمائندگی دی۔اس آئین کے تحت

اقلیتوں کے لیے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں مختص کی گئیں۔

ہر اقلیتی گروہ کے افراد صرف اپنے ہی گروہ کے امیدوار کو ووٹ دے سکتے تھے۔

یہ نظام اس بات کی ضمانت دیتا تھا کہ اقلیتیں اپنے نمائندے خود منتخب کریں، تاکہ ان کی آواز ایوانوں میں حقیقی معنوں میں سنی جا سکے۔

کا آئین1962

جنرل ایوب خان کے دور میں 1962 کا آئین آیا، جس میں پارلیمانی نظام کی بجائے صدارتی نظام نافذ کیا گیا۔

اقلیتوں کے لیے علیحدہ انتخاب کا اصول برقرار رکھا گیا، مگر اس نظام کو مزید کمزور کیا گیا۔ بی ڈی سسٹم کے تحت اقلیتوں کی سیاسی حیثیت مزید مبہم ہو گئی۔

 کا آئین1973

پاکستان کا موجودہ آئین 1973 میں منظور ہوا۔ یہ آئین اپنی نوعیت کا ایک جامع دستاویز ہے جس میں اقلیتوں کے حقوق کا ذکر کئی مقامات پر کیا گیا۔

اقلیتوں سے متعلق اہم آئینی دفعات درج ذیل ہیں:

آرٹیکل 20: ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے، اس کی تبلیغ کرنے اور مذہبی ادارے قائم کرنے کی آزادی حاصل ہے۔

آرٹیکل 22: مذہب کی بنیاد پر کسی بھی تعلیمی ادارے میں امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔

آرٹیکل 25: تمام شہری برابر ہیں اور قانون کے سامنے مساوی حیثیت رکھتے ہیں۔

آرٹیکل 36: ریاست اقلیتوں کے جائز مفادات اور ان کے مذہب، ثقافت، اور تعلیم کے تحفظ کی ضامن ہے۔

آرٹیکل 51 (5): قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں مختص کی گئی ہیں۔

آرٹیکل 106: ہر صوبائی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں رکھی گئی ہیں۔

کے آئین کے مطابق اقلیتوں کے لیے علیحدہ انتخاب کا نظام جاری رہا۔1973

جنرل ضیاء الحق کا دور (1980 کی دہائی)

جنرل ضیاء الحق کے دور میں علیحدہ انتخابی نظام کو مزید مستحکم کیا گیا، لیکن ساتھ ہی اس نظام کو اقلیتوں کے خلاف سیاسی ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا گیا۔ اقلیتی نمائندے عوامی ووٹ سے نہیں بلکہ اکثر منتخب حکومتوں کی مرضی سے آگے لائے جاتے، اور وہ حقیقی نمائندگی کے بجائے تابع فرمان حیثیت میں ایوانوں کا حصہ بنتے رہے۔

2002 کا بڑا موڑ: مشترکہ انتخابی نظام (Joint Electorate)

جنرل پرویز مشرف کے دور میں 2002 میں علیحدہ انتخابی نظام ختم کر کے مشترکہ انتخابی نظام نافذ کیا گیا۔ اس کے تحت:

اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں تو برقرار رہیں لیکن انہیں اب عوامی ووٹ سے نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کی فہرست کے تحت ایوان میں لایا جانے لگا۔

اقلیتی نمائندے اب کسی حلقے سے براہِ راست منتخب ہونے کے بجائے مخصوص نشستوں پر پارٹی قیادت کے رحم و کرم پر آ گئے۔

اس تبدیلی نے اقلیتوں کو سیاسی لحاظ سے مزید کمزور کر دیا۔ اب ان کا دار و مدار بڑی سیاسی جماعتوں کی مرضی پر ہے، جو انہیں "منتخب" نہیں بلکہ "چن" کر اسمبلی میں بھیجتی ہیں۔

میں صورتحال 2025

آج، 2025 میں اقلیتوں کی نمائندگی اب بھی مخصوص نشستوں کے ذریعے ہی کی جا رہی ہے۔ اقلیتی نمائندے بڑی سیاسی جماعتوں کے کوٹے پر اسمبلیوں میں آتے ہیں۔ ان کا انتخاب عوام کے ذریعے نہیں بلکہ پارٹی سربراہان کے فیصلے پر ہوتا ہے۔

یہ ایک "سیاسی غلامی" کی شکل ہے جس کا بارہا اقلیتی قائدین نے ذکر کیا ہے۔ ایسے نمائندے اکثر اپنے ضمیر یا عوام کی آواز کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ انہیں بھیجنے والی جماعت کی خوشنودی کے پابند ہوتے ہیں۔

پاکستان میں 1947 سے 2025 تک اقلیتوں کے انتخابی نظام کی تاریخ ایک افسوسناک حقیقت کی عکاسی کرتی ہے: اقلیتوں کو کبھی مکمل خودمختاری نہیں دی گئی۔ علیحدہ انتخاب میں آواز تھی مگر محدود اثر؛ اور مشترکہ انتخاب میں اثر تو دور کی بات، آواز بھی چھن گئی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ آئندہ آنے والے وقت میں اقلیتوں کو براہِ راست انتخاب کا حق دیا جائے تاکہ وہ اپنے حقیقی نمائندے خود چن سکیں، نہ کہ سیاسی جماعتوں کے مفادات کے تحت چنے جائیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی