Gaza: Greek Orthodox Church of St. Porphyrius (Picture Credit: Wikipedia) |
غزہ: اسرائیلی فوج کی طرف سے یونانی ارتھوڈکس اور کیتھولک چرچوں کو خالی کرنے کے حکم کے باوجود، ان مسیحی عبادت گاہوں کے رہنماؤں
نے انخلا سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے
کہ وہ اپنی عبادت گاہوں میں پناہ لینے والے خواتین، بچوں اور بیماروں کی خدمت جاری
رکھیں گے۔
یونانی
ارتھوڈکس اور کیتھولک چرچوں میں اس وقت بڑی تعداد میں خواتین، بچے اور بوڑھے افراد
پناہ لیے ہوئے ہیں، جو جنگ سے بچنے کے لیے ان گرجا گھروں میں پناہ گزین ہوئے ہیں۔
ان عبادت گاہوں میں پناہ لینے والے افراد کا کہنا ہے کہ یہ جگہ ان کے لیے تحفظ کی
علامت ہے اور یہاں ان کی حفاظت کا انتظام کیا گیا ہے۔ تاہم اسرائیلی فوج کی طرف سے
ان گرجا گھروں کو خالی کرنے کا حکم آنے کے بعد، مقامی مسیحی رہنماؤں نے واضح کیا
ہے کہ وہ ان پناہ گزینوں کی خدمت جاری رکھیں گے، چاہے انہیں کسی بھی قسم کی مشکلات
کا سامنا ہو۔
چرچ
رہنماؤں نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ ان عبادت گاہوں کے تحفظ کو یقینی
بنائے، تاکہ پناہ گزینوں کو مشکلات کا سامنا نہ ہو اور وہ اپنے مذہبی عبادات اور
روحانی سکون کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔ ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس بحران کے دوران،
وہ اپنے ایمان اور خدمت کے اصولوں پر قائم رہیں گے اور اپنے پناہ گزینوں کی مدد
کرتے رہیں گے۔
اسرائیلی
حکام کا موقف ہے کہ ان عبادت گاہوں کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور اس لیے ان سے خالی کرنے کی درخواست کی گئی
ہے۔ تاہم مسیحی قیادت نے اس موقف کو مسترد کرتے ہوئے، کہا کہ ان عبادت گاہوں میں
پناہ گزینوں کی موجودگی انہیں مذہبی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہے اور ان عبادت
گاہوں کا تقدس ان کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔
غز ہ میں قدیم یونانی ارتھوڈکس چرچ 425 عیسوی میں
تعمیر کیا گیا تھا۔ سن2023 میں تقریباً 2000 فلسطینی اس چرچ میں پنا ہ لیے ہوئے تھے جب ا سرائیل کی فضائی بمباری سے چرچ کی عمارت کو شدید نقصان پہنچا۔