![]() |
Photo Credit: Center for Law & Justice/Facebook |
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور سینٹر فار
لاء اینڈ جسٹس (سی ایل جے) کی ایک نئی مشترکہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صفائی کا
کام کرنے والے لاکھوں افراد کو ان کی ذات اور مذہب کی بنیاد پر منظم امتیازی سلوک،
بدنامی، اور غیر انسانی خطر ناک
ماحول میں کام کروانے کا سامنا ہے۔ رپورٹ میں روشنی ڈالی گئی ہے کہ ملک کے آئینی تحفظ اور بین
الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کے باوجود سینٹری ورکرز کے وقار، زندگی، اور
سلامتی کے حقوق کی کس طرح خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں صفائی
کا کام ایک منظم طریقے سے غیر متناسب طور پر غیر مسلموں کو سونپا جاتا ہے، خاص طور
پر نام نہاد "زیریں ذاتوں" سے تعلق رکھنے والے مسیحیوں اور ہندوؤں کو،
اکثر ان کی مرضی کے بغیر ۔ روایتی طور پر یہ پیشے جیسے جھاڑو دینا، کچرا اٹھانا
اور گٹروں کی صفائی کرنا کو "گندے"
یا "ناپاک" پیشے سمجھا جاتا ہے جس سے سماجی تعصب اور ذات پات پر مبنی امتیازی
سلوک میں اضافہ ہوتا ہے۔
رپورٹ میں شامل 231 سینٹری ورکرز
میں سے 29 نے بتایا کہ انہیں اکثر "چوہڑا،" "بھنگی،"
"جمعدار" اور "عیسائی" جیسے توہین آمیز ناموں سے پکارا جاتا
ہے، حتیٰ کہ انہیں "کتا" بھی کہا جاتا ہے۔ پشاور سے تعلق رکھنے والی ایک
خاتون صفائی کارکن نے بتایا، "
ظاہر ہے، لوگ ہمیں عزت کی نگاہ سے
نہیں دیکھتے۔ ہمارے بچے بھی سکول میں اپنے پیشے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہچکچاتے
ہیں، کیونکہ اگر وہ ایسا کریں تو ان کے ہم جماعت ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔
بہت سے افراد نے رپورٹ کیا کہ
انہیں مسلمانوں کے ساتھ ایک ہی برتن میں کھانے یا ایک ہی جگہ پر بیٹھنے کی اجازت
نہیں دی جاتی۔
سینٹری ورکرز، خاص طور پر مسیحی
برادری سے تعلق رکھنے والے، توہین مذہب کے جھوٹے الزامات کا مسلسل خطرہ محسوس کرتے
ہیں۔ رپورٹ میں آسیہ بی بی کے کیس اور اگست 2023 میں جڑانوالہ میں توہین مذہب کے
الزام کے بعد چرچوں اور مسیحی گھرانوں پر ہونے والے حملے کا ذکر کیا گیا ہے، جس
میں 20 سے زیادہ چرچ اور 80 مسیحی گھر تباہ ہوئے۔ کراچی کی ایک خاتون صفائی کارکن
نے بیان کیا کہ توہین مذہب کے الزامات کا خوف اتنا شدید ہے کہ مسیحی خاندان بعض
اوقات اپنے گھروں میں بھی مذہبی اظہار سے گریز کرتے ہیں تاکہ کوئی غلط فہمی نہ ہو۔
رپورٹ نے انکشاف کیا کہ حکومتی
اداروں میں امتیازی بھرتی کے طریقے عام ہیں، جہاں صفائی کے کام کے لیے واضح طور پر
"غیر مسلم" یا نام نہاد "زیریں ذاتوں" سے تعلق رکھنے والے
درخواست دہندگان کو ترجیح دی جاتی ہے۔ سی ایل جے نے 2010 سے مارچ 2025 تک 281 ایسے
امتیازی نوکری کے اشتہارات جمع کیے ہیں۔ ایک مرد صفائی کارکن نے بتایا کہ وہ
الیکٹریشن کی نوکری کے لیے انٹرویو دینے گئے تھے، لیکن جب انہیں پتہ چلا کہ وہ
مسیحی ہیں تو انہیں صرف صفائی کا کام پیش کیا گیا۔ لاہور کی ایک خاتون کارکن نے شکایت کی کہ اگر
مسیحی کارکن تعلیم یافتہ بھی ہو تو اُس خاکروب ہی بھرتی کیا جاتا ہے ۔ جبکہ اگر
کوئی مسلمان ناخواندہ ہو تو افسر بن سکتا
ہے
رپورٹ میں پنجاب یونیورسٹی کے اعداد و شمار دیے گئے ہیں کہ 400 سینٹری ورکرز میں سے 396 مسیحی تھے جبکہ
صرف چار مسلمان تھے۔سینٹری ورکرز کی اکثریت مستقل ملازمت کے بجائے ٹھیکیداری یا
یومیہ اجرت پر کام کرتی ہے، جس سے انہیں ملازمت کا تحفظ، مراعات اور قانونی تحفظات
سے محروم رکھا جاتا ہے۔خواتین کو خاص طور پر اجرت میں نمایاں صنفی فرق کا سامنا
کرنا پڑتا ہے۔سپروائزرز کی جانب سے تنخواہوں میں غیر قانونی کٹوتیاں مزید متاثر
کرتی ہیں۔ کئی کارکنان نے بتایا کہ ان کے اے ٹی ایم کارڈز سپروائزرز کے پاس رکھے
جاتے ہیں۔
سینٹری
ورکرز کو اکثر ذاتی حفاظتی سامان (پی پی ای) اور حفاظتی تربیت نہیں دی جاتی۔ کیمیکلز،
زہریلی گیسوں، اور تیز دھار اشیاء کے رابطے سے جلد میں جلن، سانس کے مسائل، اور
چوٹیں عام ہیں۔ حادثات /اموات کی صورت میں معاوضہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔
سفارشات:
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستانی
حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ سینٹری ورکرز کے حقوق کی حفاظت کے لیے فوری اور جامع
اقدامات کیے جائیں:
تمام سینٹری ورکرز کو
فوری طور پر مستقل حیثیت دی جائے اور انہیں باقاعدہ دستاویزی معاہدے فراہم کیے
جائیں۔
دستی گٹر
صفائی اور کچرا اٹھانے کو مکمل طور پر ختم کیا جائے اور اس کی جگہ جدید مشینوں کا
استعمال متعارف کرایا جائے۔ موجودہ سینٹری ورکرز کو ان مشینوں کو چلانے کی تربیت
دی جائے۔
آئین میں
ذات پات پر مبنی امتیازی سلوک کے خلاف تحفظ کو واضح طور پر شامل کیا جائے اور اس
سے متعلق قانون سازی کی جائے تاکہ سینٹری ورکرز کو درپیش منفرد امتیازی سلوک کو
ختم کیا جا سکے۔ اور قوانین کو بین الاقومی لیبر لازء کے ہم آنگ کیا
جائے
ایسے نوکری کے اشتہارات پر
مکمل پابندی لگائی جائے جو ذات اور مذہب کو ملازمت کامعیار بناتے ہیں۔
مزدور
قوانین کا جائزہ لیا جائے اور ان میں ترمیم کی جائے تاکہ سینٹری ورکرز کے لیے کام
کے حالات، حفاظت، اور امتیازی سلوک سے متعلق خاص مسائل کو حل کیا جا سکے، اور
صفائی کے کام کو "خطرناک کام" قرار دیا جائے۔
تمام
کارکنان کے لیے حکومتی طے شدہ کم از کم اجرت کو یقینی بنایا جائے، غیر قانونی
کٹوتیوں کو روکا جائے، اور صنفی اجرت کے فرق کو ختم کیا جائے۔
تمام سینٹری
ورکرز کو ان کی ملازمت کی حیثیت سے قطع نظر ذاتی حفاظتی سامان (پی پی ای) کی لازمی
فراہمی یقینی بنائی جائے۔
تمام سینٹری
ورکرز کو سماجی تحفظ اور مزدور بہبود کی اسکیموں میں لازمی طور پر شامل کیا جائے۔
غیر مسلموں، محروم ذاتوں
اور صفائی کے کام سے وابستہ افراد کے خلاف موجودہ تعصبات کو ختم کرنے کے لیے شعور
اجاگر کرنے کی مہمات شروع کی جائیں اور اسکول کے نصاب میں شامل کیا جائے ۔
صفائی کے شعبے سے وابستہ
کمیونٹی اور اُن کے بچوں کو تعلیم و ترقی
کے مواقع فراہم کرنے کے لیے فنڈز اور وسائل مختص کیے جائیں، جن میں ذات کی شناخت
کو مدنظر رکھتے ہوئے کوٹہ پر مبنی مساوی مواقع فراہم کیے جائیں
ایسے
اقدامات کئے جائیں تاکہ لیبر یونینز میں سنٹری ورکرز کی شمولیت کو یقینی بنایا
جائے۔
رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ سینٹری
ورکرز پاکستان کے شہروں کی صفائی ستھرائی کے لیے ناگزیر ہیں۔ رپورٹ کے اختتام پر
اسلام آباد کی ایک خاتون صفائی کارکن کا قول نقل کیا گیا ہے جو کہتی ہیں،
سارا ملک ہماری وجہ سے صاف ہے،
ہمیں عزت دو
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستانی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ انسانی حقوق پر مبنی ایک جامع نقطہ نظر اپنائیں تاکہ سینٹری ورکرز کو درپیش ، سماجی اور اقتصادی مشکلات کو دور کیا جا سکے۔