![]() |
سسٹر پریٹی میری اور سسٹر وندنا فرانسس |
واقعہ اس وقت پیش آیا جب دونوں سسٹرز
دو نوجوان لڑکیوں (عمر 19 اور 22 سال) کے ساتھ درگ ریلوے اسٹیشن پر آگرہ
جانے کے لیے موجود تھیں۔ اسی دوران انتہاپسند تنظیم بجرنگ دل کے کارکن وہاں
پہنچے اور سسٹرز پر مذہب کی جبری تبدیلی اور انسانی اسمگلنگ کے سنگین الزامات عائد
کر دیے۔ انہیں زدو کوب کیا۔
پولیس نے
فوری کارروائی کرتے ہوئے دونوں راہبات کو گرفتار اور نوجوان لڑکیوں کو دارالامان
منتقل کر دیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ ایک مقامی ہندو تنظیم بجر نگ دل کی شکایت پر چھتیس گڑھ مذہبی آزادی
ایکٹ اور انسدادِ غیر اخلاقی کاروبار ایکٹ کے تحت درج کیا گیا ہے۔
ریاست کے
وزیرِ اعلیٰ وشنو دیو سائی نے بھی بغیر ابتدائی تحقیق کے راہبات کو قصوروار
قرار دے دیا، جس پر مسیحی برادری نے سخت ردِعمل ظاہر کیا۔
متاثرہ
لڑکیوں نے اپنے خاندانوں سمیت حلفیہ بیان دیا ہے کہ وہ بالغ ہیں اور اپنی مرضی سے
اور والدین کی اجازت سے، نرسنگ کی تربیت
کے لیے سسٹرز کے ساتھ سفر کر رہی تھیں۔ ایک لڑکی کاملشواری نے میڈیا سے
گفتگو میں انکشاف کیا کہ بجرنگ دل کے کارکنوں نے ریلوے اسٹیشن پر انہیں زدوکوب کیا
اور سسٹرزکے خلاف بیان دینے پر مجبور کیا۔ اس نے بتایا
"جب ہمیں دھمکایا گیا تو سسٹرز نے
کہا: ان بچیوں کو کچھ نہ کہنا، ہمیں مار لو۔"
کاملشواری نے مزید کہا کہ وہ اور
اس کا خاندان کئی دہائیوں سے مسیحی ہیں اور ان پر مذہب تبدیلی کا الزام بے بنیاد
ہے۔
اس کے باوجود دونوں راہبات کو ابھی تک رہا نہیں کیا گیا، جس پر بھارت بھر میں مسیحی برادری سراپا احتجاج ہے۔ کانگریس رہنما پرینکا گاندھی نے دہلی میں پارلیمنٹ
باہر مظاہرے میں شرکت کرتے ہوئے اس
واقعے کی شدید مذمت کی اور کہا
"اقلیتوں پر مظالم کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔"
بھارت کی ہر ریاست میں مسیحی
برادری کی جانب سے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ مگر ابھی تک سسٹرز کو رہا نہیں کیا گیا۔