ڈاکٹر عارف علوی کے خلاف توہینِ مذہب کے الزامات:علمائے کرام کی رائے طلب

Dr. Arif Alvi
Dr. Arif Alvi-Former President of Islamic Republic of Pakistan

لاہور (نیوز ڈیسک) - سیشن کورٹ لاہور نے سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی کے خلاف توہینِ مذہب کے الزامات سے متعلق مقدمے کی درخواست پر فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کو علمائے کرام کے بورڈ سے رائے لینے کی ہدایت کی ہے ۔

 ایڈیشنل سیشن جج شفقت شہزاد راجہ نے شہزادہ عدنان نامی شہری کی درخواست پر سماعت کے بعد یہ فیصلہ سنایا۔

درخواست گزار شہزادہ عدنان نے اپنے وکیل مدثر چوہدری ایڈووکیٹ کے ذریعے موقف اختیار کیا کہ ڈاکٹر عارف علوی نے ایک غیر ملکی دورے کے دوران توہینِ مذہب پر مبنی الفاظ کہے، جن کی ویڈیو ان کی نظر سے گزری۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس بیان سے انہیں شدید دکھ پہنچا اور اس معاملے پر ایف آئی اے سے رجوع کیا گیا، لیکن مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔ درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ توہینِ مذہب کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا جائے۔

ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ علامہ بورڈ کے فیصلے کی روشنی میں مقدمہ آگے بڑھے گا۔

توہینِ مذہب کے الزامات کے تحت پاکستان میں کئی سنگین واقعات پیش آئے ہیں، جہاں بغیر تفتیش، کیس یا عدالتی کارروائی کے لوگوں پر تشدد کیا گیا یا انہیں قتل کر دیا گیا۔ خاص طور پر مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے غریب شہریوں کو اکثر منصفانہ قانونی عمل تک رسائی نہیں ملتی، اور محض الزامات کی بنیاد پر ان کے خلاف پرتشدد کارروائیاں ہوتی ہیں۔ کئی مواقع پر اقلیتی برادریوں کی پوری آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا،  ان کے گھروں اور عبادت گاہوں کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔

ہجوم نے بغیر کسی تصدیق کے تباہی مچائی۔ اس کے برعکس، سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی کے خلاف توہینِ مذہب کے الزامات کے کیس کو سیشن کورٹ لاہور نے علمائے کرام کے بورڈ کے پاس رائے کے لیے بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ ایک معروف شخصیت کے معاملے میں عدالتی عمل زیادہ منظم اور محتاط انداز میں آگے بڑھ رہا ہے، جہاں شواہد کی جانچ پڑتال اور ماہرین کی رائے کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ یہ تضاد پاکستانی معاشرے میں طبقاتی اور مذہبی تفریق کو اجاگر کرتا ہے، جہاں عام شہریوں، بالخصوص اقلیتوں، کو فوری انصاف یا تحفظ میسر نہیں، جبکہ بااثر شخصیات کے کیسز میں قانونی تقاضوں پر عمل کیا جاتا ہے۔ اس صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ توہینِ مذہب کے الزامات کے غلط استعمال کو روکنے اور سب کے لیے یکساں قانونی تحفظ یقینی بنانے کے لیے جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی