![]() |
آرچ بشپ پال رچرڈ گالاگھرکی کیتھولک بشپ کونسل آف انڈیا کی مرکزی دفتر کے دورے کی ایک تصویر | Photo : Facebook-CBCI |
ہندوستان میں مسیحیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد اور امتیازی سلوک کے پیش نظر یونائیٹڈ کرسچن فورم انڈیا نے پاپائے روم کو ایک یاد داشت پیش کی ہے اور اس سنگین مسئلے کی طرف عالمی توجہ دلانے کی درخواست کی ہے۔
یہ یادداشت آرچ بشپ آف دلی انیل جوزف کوٹو نے یونائیٹڈ
کرسچن فورم کے جانب سے ویٹیکن کے وزیر خارجہ،
آرچ بشپ پال رچرڈ گالاگھر کو پیش کی گئی، جو ایک ہفتے کے دورے پر ہندوستان میں
موجود تھے۔
یونائیٹڈ کرسچن فورم کے مطابق، 2024 میں ہندوستان
میں مسیحیوں کے خلاف تشدد کے 834 واقعات
رپورٹ ہوئے، جو کہ 2023 کے 734 واقعات سے 100 زیادہ ہیں۔ فورم نے اپنی رپورٹ میں
بتایا کہ اس سال کے پہلے چھ ماہ میں اوسطاً ہر روز دو سے زیادہ مسیحیوں کو ان کے
عقیدے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔ سب سے زیادہ واقعات اتر پردیش (209) اور چھتیس
گڑھ (165) سے رپورٹ ہوئے۔
یادداشت میں کہا گیا کہ مسیحیوں کے خلاف تشدد کی
بنیادی وجہ "جبری تبدیلی مذہب" کے جھوٹے الزامات ہیں، جن کا استعمال
ہندو قوم پرست گروہوں کی طرف سے مسیحیوں کو ہراساں کرنے اور ان پر حملوں کے لیے
کیا جاتا ہے۔ فورم نے بتایا کہ ان واقعات میں اکثر پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی
نہیں کی جاتی، اور کئی بار متاثرین کو ہی جھوٹے مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے
فورم کے کنوینر اے سی مائیکل نے کہا کہ "ہندوستان کے آئین کا آرٹیکل
25 ہر شہری کو اپنے پسندیدہ مذہب کو
اختیار کرنے کی آزادی دیتا ہے، مسیحیوں کو اپنے عقیدے کی وجہ سے مسلسل نشانہ بنایا
جا رہا ہے۔" انہوں نے ویٹیکن سے مطالبہ کیا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ دو طرفہ
انسانی حقوق کے مذاکرات میں اس معاملے کو اٹھائے اور اینٹی کنورژن قوانین کے غلط
استعمال کی روک تھام کے لیے اقدامات کرے۔
فورم نے ویٹیکن سے درخواست کی کہ وہ ہندوستان کی
وفاقی اور ریاستی حکومتوں کے ساتھ مل کر مسیحیوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے اور
عدالتی شفافیت کو یقینی بنائے
دوسری جانب، وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے آرچ بشپ
گالاگھر کے ساتھ ملاقات کے بعد سوشل میڈیا پر کہا کہ انہوں نے "ایمان کی اہمیت
اور تنازعات کے حل کے لیے سفارت کاری کی ضرورت" پر بات کی۔ تاہم، مسیحیوں کے
خلاف تشدد کے معاملے پر کوئی خاص تبصرہ نہیں کیا گیا
یونائیٹڈ کرسچن فورم نے خبردار کیا کہ اگر ہندوستان
کی حکومت نے فوری طور پر اس رجحان کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے تومسیحی برادری
کی شناخت اور وجود کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے،