![]() |
House set on fire by extremists |
پاکستان کے شہر جڑانوالہ میں مسیحی برادری کے گرجا گھروں اور گھروں پر ہولناک حملے کو دو سال مکمل ہو گئے ہیں، تاہم متاثرین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق انصاف کی فراہمی میں اب بھی سنگین رکاوٹیں حائل ہیں۔ 16 اگست 2023 کو توہین مذہب کے مبینہ الزامات کے بعد مشتعل
ہجوم نے
جڑانوالہ میں بیس سے زائد گرجا گھروں اور 80 سے زائد مسیحی گھروں کو نذر آتش کیا
اور لوٹ مار کی تھی۔
جڑانوالہ
واقعے کے بعد، ملک کی اہم شخصیات نے
متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور مسیحی برادری سے یکجہتی کا اظہار کیا
عبوری
وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے جڑانوالہ کا دورہ کیا، مسیحی برادری سے یکجہتی کا
اظہار کیا، اور جن خاندانوں کے گھر نذر آتش ہوئے تھے انہیں معاوضے کے چیک تقسیم
کیے۔ انہوں نے زور دیا کہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ اقلیتوں کے جان و مال کی حفاظت
کرے اور بین المذاہب ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیا۔
پنجاب کے
عبوری وزیر اعلیٰ محسن نقوی بھی اس موقع پر موجود تھے۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی
کہ پولیس سی سی ٹی وی فوٹیج اور جیو فینسنگ کی مدد سے ملزمان کی تلاش میں ہے اور چرچز
کو ان کی اصل حالت میں بحال کیا جائے گا۔ انہوں نے مالی امداد فراہم کرنے کا بھی
اعلان کیا اور کہا کہ حکومت انصاف فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
سپریم
کورٹ کے اس وقت کے سینیئر موسٹ جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی اپنی اہلیہ کے
ہمراہ جڑانوالہ کا دورہ کیا۔ انہوں نے متاثرین سے ملاقات کی اور جلی ہوئی عمارتوں
کی حالت کا جائزہ لیا۔ جسٹس عیسیٰ نے اس بات پر زور دیا کہ مسلمانوں کی ذمہ داری
ہے کہ وہ گرجا گھروں پر حملہ کرنے والوں کا مقابلہ کریں، اور اس واقعے کو پاکستان
کے قانون اور آئین کی خلاف ورزی قرار دیا۔
مگر دو
سال کے بعد ان اہم شخصیات کے دورے اور بلند وبانگ دعوئے محض لفاظی ثابت ہوئے ۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ 5213
افراد پر مقدمہ قائم کیا گیا۔صرف 380 گرفتا ر ہوئے ۔ جن میں سے 228 افراد
کو عدالت نے ضمانت پر رہا کر دیا۔ اور بہت
سارے نا کافی ثبوت نہ ہونے کے باعث با عزت بری ہو چکے ہیں۔
اس سال جون 2025 کو فیصل آباد کی انسداد دہشت گردی
عدالت (اے ٹی سی) نے جڑانوالہ میں ایک گرجا گھر جلانے کے الزام میں نامزد 10
ملزمان کو بری کر دیا۔ ان ملزمان میں آصف علی، ان کے دو بیٹے شمعون علی اور سلیم
علی، اسامہ اکبر، محمد ادریس، عاطف حسین، محمد ندیم، محمد اعظم اور محمد اشرف شامل
تھے۔ اے ٹی سی کے جج جاوید اقبال شیخ نے یہ فیصلہ استغاثہ کی جانب سے الزامات ثابت
کرنے میں ناکامی کے بعد سنایا۔
چرچ
انتظامیہ کے وکیل اکمل بھٹی نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ پولیس نے شفاف تفتیش نہیں کی
اور جان بوجھ کر ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد کو نظر انداز کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا
کہ متاثرین میں سے ایک رفیق مسیح (جن کا گھر بھی جلایا گیا تھا) نے جیل میں شناخت
پریڈ کے دوران بری ہونے والے تمام افراد کی شناخت کی تھی۔ وکیل بھٹی نے اعلان کیا
ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔
مسیحی
برادری کے رہنماؤں نے جڑانوالہ فسادات کے مقدمات میں انصاف کی عدم فراہمی پر گہری
تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل
کے ضمانت پر رہا ہوئے اور 77 کے خلاف الزامات ختم کر دیے گئے، جس کے نتیجے میں 4,833 مشتبہ افراد اب بھی آزاد ہیں۔ یہ صورتحال مجرموں سب کے لیے استثنیٰ کا ماحول پیدا ہوا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی جڑانوالہ واقعے کی پولیس رپورٹ کو مسترد کر دیا تھا یہ
نوٹ کرتے ہوئے کہ متعلقہ معلومات فراہم نہیں کی گئیں اور پولیس پر زور دیا تھا کہ
وہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔
جڑانوالہ
میں مسیحی خاندان اب بھی خوف میں جی رہے ہیں اور انہیں مجرموں کی طرف سے مسلسل
دھمکیوں کا سامنا ہے جو گزشتہ سال رہا ہوئے۔ بہت سے افراد اپنی نوکریاں کھو چکے
ہیں اور کچھ خاندانوں کو پڑوسی شہروں میں نقل مکانی کرنی پڑی ہے۔ حکومتی کوششوں کے
باوجود، بہت سے متاثرہ خاندان اب بھی معاوضے کے منتظر ہیں۔ مقامی پا دری کے مطابق 146 متاثرہ خاندانوں میں سے صرف 85
کو معاوضہ ملا ہے۔
ایمنسٹی
انٹرنیشنل اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں نے بارہا مطالبہ کیا ہے کہ جڑانوالہ
حملوں اور اس طرح کے دیگر پرتشدد واقعات کی مکمل، غیر جانبدارانہ اور آزادانہ
تحقیقات کی جائیں اور ذمہ داران کو منصفانہ اور شفاف ٹرائل کے ذریعے انصاف کے
کٹہرے میں لایا جائے۔ انہوں نے توہین مذہب کے قوانین کو فوری طور پر منسوخ کرنے کا
بھی مطالبہ کیا ہے تاکہ ملک میں اقلیتوں کے لیے محفوظ ہو ۔ پاکستانی چرچ لیڈر شپ ماڈریٹر چرچ آف پاکستان بشپ آزاد مارشل اور کیتھولک بشپ
کونسل اس واقعے کی جوڈیشنل انکوائری کا
مطالبہ کرتی ہے ۔