اقلیتی مذاہب کے بچوں کی حالت زار: پاکستان میں 2024 کی صورتحال کا تجزیہ

Photo: Mudassir Bhatti


 نیشنل کمیشن آن دی رائٹس آف چائلڈ (این سی آر سی) نے حال ہی میں اپنی رپورٹ "چلڈرن فرام مناریٹی ریلیجنز ان پاکستان: سچویشن اینالسس 2024" جاری 

کی ہے، جس میں پاکستان میں اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے بچوں کو درپیش سنگین مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے۔

Children from Minority Religions in Pakistan: Situation Analysis 2024

 یہ رپورٹ ہندو، مسیحی، سکھ، احمدی اور دیگر پسماندہ مذہبی برادریوں کے بچوں کو درپیش امتیازی سلوک، جبر اور استحصال کے مسائل کو اجاگر کرتی ہے، جو مذہب، ذات، جنس، طبقاتی اور جغرافیائی عوامل کی وجہ سے مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔

 رپورٹ کے مطابق، اقلیتی بچوں کو تعلیم، تحفظ اور معاشی مواقع سے منظم طور پر محروم رکھا جاتا ہے۔ تقریباً 39 فیصد اسکول جانے کی عمر کے بچے تعلیم سے محروم ہیں، اور اقلیتی بچوں میں یہ شرح خاص طور پر زیادہ ہے۔ غربت، جبری مشقت، اور بنیادی ڈھانچے کی کمی جیسے مسائل تعلیم تک رسائی میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ خاص طور پر لڑکیوں کو کم عمری میں شادی، حفاظتی خدشات اور قریبی اسکولوں کی کمی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

رپورٹ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ نصاب میں اسلامی نصاب پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے، جبکہ اقلیتی مذاہب کے لیے 2023 میں منظور شدہ مذہبی تعلیمی نصاب کا نفاذ ناکافی ہے۔ سب سے سنگین مسائل میں سے ایک جبری تبدیلی مذہب ہے، خاص طور پر ہندو اور مسیحی لڑکیوں کو اغوا، جبر اور بڑی عمر کے مردوں سے شادی کے ذریعے مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ واقعات سندھ اور جنوبی پنجاب میں زیادہ عام ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزوری اور معاشرتی تعصبات کی وجہ سے ملزمان اکثر سزا سے بچ جاتے ہیں۔

 اس کے علاوہ، اقلیتی بچوں کی بڑی تعداد خاص طور پر اینٹوں کے بھٹوں اور زراعت کے شعبوں میں جبری مشقت کا شکار ہے، جو غربت اور ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا نتیجہ ہے۔

رپورٹ میں متعدد سفارشات پیش کی گئی ہیں، جن میں قانونی ڈھانچے کو مضبوط کرنا، شادی کی کم از کم عمر 18 سال کرنے، تعلیمی نصاب کو جامع بنانے، اور جبری تبدیلی مذہب کے خلاف خصوصی قانون سازی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، اقلیتی بچوں کے لیے نقد امدادی پروگراموں اور وظائف کو وسعت دینے کی تجویز بھی دی گئی ہے تاکہ غربت اور جبری مشقت کے چکر کو توڑا جا سکے۔

 این سی آر سی کی چیئرپرسن عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ یہ مسائل محض واقعات نہیں بلکہ ایک منظم نظام کا حصہ ہیں، جن کا حل قانونی اصلاحات، سماجی تبدیلی اور سیاسی عزم سے ہی ممکن ہے۔

رپورٹ پاکستان کے آئین اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدوں کے تحت اقلیتی بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کرتی ہے۔

یہ رپورٹ اقلیتی بچوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی حکومت اور معاشرے کے لیے ایک آئینہ دار ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے لیں اور ہر بچے کے لیے وقار، تحفظ اور مساوی مواقع کو یقینی بنائیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی