| مصنوعی ذہانت کیا ہے |
مصنوعی ذہانت کیا ہے ؟مشینیں کیسے
سوچتی اور تخلیق کرتی ہیں؟
آسان اور سادہ
زبان میں جانیے "اے آئی" کیا ہے ؟ یہ کیسے کام کرتی ہے ؟
مصنوعی ذہانت کیا ہے؟
سادہ الفاظ میں، اے آئی اور انسان
کے دماغ میں مماثلت ہے کہ دونوں ڈیٹا اکٹھا کرتے
ہیں، سیکھتے ہیں، اور فیصلہ کرتے ہیں۔ اے آئی وہی ٹیکنالوجی ہے جو کمپیوٹرز اور مشینوں کو انسانی
دماغ کی صلاحیتوں کی نقل کرنے کے قابل بناتی ہے۔ یہ صرف سادہ پروگرامنگ نہیں ہے؛
بلکہ یہ ایسی صلاحیتیں فراہم کرتی ہے جن میں انسانی زبان کو سمجھنا اور اس کا جواب
دینا، نئی معلومات اور تجربات سے سیکھنا، پیچیدہ فیصلے کرنا، اور آزادانہ طور پر
عمل کرنا شامل ہے۔ خود کار گاڑیوں کا نظام اسی خود مختاری کی ایک کلاسک مثال ہے۔
اے آئی کیسے کام کرتی ہے ؟
ڈیٹا سے سیکھنا
جیسے انسان تجربے سے سیکھتا ہے، ویسے ہی اے آئی کو بھی
بہت سارا ڈیٹا
(مثلاً تصویریں، لکھی ہوئی عبارتیں، آوازیں، ویڈیوز وغیرہ) دیا جاتا ہے۔ یہ اس
ڈیٹا سے پیٹرن
(یعنی چیزوں کے بار بار آنے والے انداز) سیکھ لیتی ہے۔
نمونے پہچاننا
جب آپ اسے نیا ڈیٹا دیتے ہیں، تو یہ اپنے سیکھے ہوئے
پیٹرن سے پہچانتی ہے
مثلاً یہ بتا سکتی ہے کہ تصویر میں "کتا" ہے
یا "بلی"۔
فیصلے کرنا
اے آئی پھر سیکھے ہوئے اصولوں کی بنیاد پر فیصلہ
یا جواب
دیتی ہے۔
جیسے:
گوگل
آپ کے سرچ کے مطابق نتیجے دکھاتا ہے۔ یوٹیوب آپ کی پسند کے مطابق وہ ویڈیو تجویز
کرتا ہے جو آپ کو پسند آ سکتی ہے۔ چیٹ جی پی ٹی آپ سے بات کرتا ہے اور آپ کے سوال
سمجھ کر جواب بناتا ہے۔
وقت کے ساتھ بہتر
ہونا
جتنا زیادہ ڈیٹا اے آئی کو ملتا ہے، اتنی وہ سمجھدار
اور درست
ہوتی جاتی ہے۔ یعنی یہ خود کو آہستہ آہستہ بہتر کرتی رہتی ہے۔
فرض کریں ہم اے آئی کو سکھانا
چاہتے ہیں کہ یہ تصویر میں سیب ہے یا کیلا۔
مرحلہ 1:
ڈیٹا دینا
ہم اے آئی کو ہزاروں تصویریں
دکھاتے ہیں کچھ سیب کی، کچھ کیلے کی۔
ہر تصویر کے ساتھ ہم لکھ دیتے ہیں
"یہ
سیب ہے"
"یہ
کیلا ہے"
مرحلہ 2:
سیکھنا
اے آئی ان تصویروں کو دیکھ کر خود
سمجھنا شروع کرتی ہے ۔سیب گول ہوتا ہے،
سرخ یا سبز رنگ کا ہوتا ہے۔ کیلا لمبا اور پیلا ہوتا ہے۔ یعنی یہ تصویروں میں سے پیٹرن
سیکھ لیتی ہے
مرحلہ 3:
نیا امتحان
اب ہم اسے ایک نئی تصویر دکھاتے
ہیں جسے اس نے پہلے نہیں دیکھا۔ اے آئی تصویر کو دیکھ کر اپنے سیکھے ہوئے اصول یاد
کرتی ہے، اور کہتی ہے
"یہ شکل اور رنگ دیکھ
کر لگتا ہے یہ سیب ہے!"
مرحلہ 4:
وقت کے ساتھ بہتری
اگر کبھی اے آئی غلط پہچان لے
(مثلاً کیلے کو سیب کہہ دے)،
تو ہم اسے بتاتے ہیں
"یہ غلط ہے، یہ کیلا تھا۔"
اگلی بار یہ اپنی غلطی درست کر لیتی ہے۔ یوں یہ سیکھتی
اور بہتر ہوتی جاتی ہے۔
بلکل
ایسے ہی اے آئی لاکھوں کتابوں، مضامین، اور گفتگوؤں سے
سیکھتی ہے
اے آئی اور انسان
کے دماغ میں یہی مماثلت ہے کہ دونوں ڈیٹا اکٹھا کرتے
ہیں، سیکھتے ہیں، اور فیصلہ کرتے ہیں
فرض کریں ایک گاڑی
ہے جو بغیر
ڈرائیور کے خود چلتی ہے۔ یہ
گاڑی بھی اے
آئی کے ذریعے چلتی ہے۔
جیسے انسان کے پاس
آنکھیں،
کان، ناک، زبان، اور چھونا ہوتے ہیں،گاڑی کے پاس بھی اپنے مصنوعی
حواس ہوتے ہیں۔
آنکھوں
کی طرح، کیمرے سڑک دیکھتے ہیں۔ ما ئیکروفون آوازیں سنتے ہیں۔ ریڈار اور سنسرز فاصلے اور رکاوٹیں محسوس کرتے ہیں۔ جی پی
ایس(جیسے گوگل میپ) گاڑی کے دماغ کو بتاتا ہے کہاں جانا ہے۔
یہ
سب مل کر گاڑی کو دنیا کے بارے میں ڈیٹا دیتے ہیں۔
گاڑی کے اندر موجود اے آئی سسٹم
اس ڈیٹا کو سمجھتا ہے
"سامنے رکشہ آ رہا ہے!"
"سگنل سرخ ہو گیا، رک جاؤ!"
"اب بائیں مڑنا ہے۔"
یعنی
یہ بھی دماغ
کی طرح سوچ کر فیصلہ کرتی ہے۔
بلکہ انسانی دماغ کی طرح تجربات سے سیکھتی
جاتی ہے ۔
اے آئی کا ڈیٹا دنیا
بھر میں پھیلے بڑے بڑے کمپیوٹر ز میں محفوظ ہوتا ہے۔ جنہیں ڈیٹا سنٹرز کہتے ہیں۔
کھربوں میگا بائٹس کا ڈیٹا جمع ہوتا ہے جہاں ہزاروں طاقتور کمپیوٹر مسلسل چلتے
رہتے ہیں۔