آہ کو چاہیے اِک عُمر اثر ہونے تک - غالب (غزل)

غزل 

(مرزا اسد اللہ خان غالب)


 آہ کو چاہیے اِک عُمر اثر ہونے تک   

کون جیتا ہے تری زُلف کے سر ہونے تک​
دامِ ہر موج میں ہے حلقۂ صد کامِ نہنگ​
دیکھیں کیا گُزرے ہے قطرے پہ گُہر ہونے تک​
عاشقی صبر طلب ، اور تمنّا بیتاب​
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک​
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے ، لیکن​
خاک ہو جائیں گے ہم، تم کو خبر ہونے تک​
پرتوِ خُور سے ، ہے شبنم کو فنا کی تعلیم​
میں بھی ہوں ، ایک عنایت کی نظر ہونے تک​
یک نظر بیش نہیں فُرصتِ ہستی غافل !​
گرمئِ بزم ہے اِک رقصِ شرر ہونے تک​
غمِ ہستی کا ، اسدؔ ! کس سے ہو جُز مرگ ، علاج​
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک​

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی