![]() |
Mirza Asadullah Ghalib |
غزل
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان
لیکن پھر بھی کم نکلے
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر
ترے کوچے سے ہم نکلے
ڈرے کیوں میرا قاتل؟ کیا رہے گا اُس کی
گردن پر
وہ خوں، جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بہ دم نکلے؟
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر
جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
ذرا کر زور سینے پر کہ تیر پُرسِتم نکلے
جو وہ نکلے تو دل نکلے، جو دل نکلے تو دم نکلے
کہاں میخانۂ غم کا وہ دل ہے جو کہ اس میں
پُر از جام و سبو ہو کر بھی خالی ہاتھ ہم نکلے
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں، جس کافر پہ دم نکلے
خدا کے واسطے پردہ نہ کعبہ سے اُٹھا ظالم
کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے
کہاں میخانے کا دروازہ غالب! اور کہاں واعظ
پر اِتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے